ان دنوں غزہ میں اسرائیلی افواج کے ہاتھوں روزانہ 100 سے زائد افراد ہلاک ہو رہے ہیں۔ ان سب کی موت خیموں میں نہیں ہوتی بلکہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو اس وقت اندھا دھند نشانہ بنایا جاتا ہے جب وہ غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف) کے زیر انتظام نام نہاد "امدادی" مقامات پر خوراک لینے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں، جو کہ اسرائیلی حمایت یافتہ اور امریکی زیر انتظام کمپنی ہے جس نےغزہ پٹی میں اقوام متحدہ کے امدادی نظام کی جگہ لی ہے۔
یکم مارچ سے اسرائیل نے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کر رکھی ہے، جو تمام فلاحی امداد کو ساحلی علاقے میں داخل ہونے سے روک رہی ہے۔ مارچ سے 19 مئی کے درمیان ایک بھی امدادی ٹرک کوداخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ جب ترسیل دوبارہ شروع ہوئی تو ان پر سخت پابندیاں عائد کر دی گئیں، اور بہت سی ترسیلات کو روک لیا گیا یا جب وہ گوداموں تک پہنچ رہی تھیں تواسرائیلی حمایت یافتہ عناصرکےذریعہ لوٹ لیا گیا۔ جی ایچ ایف کے "امدادی" مقامات، جنہیں ایک انسانی دوست اقدام کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، نے خوراک کی تقسیم کو سفاکانہ "موت کے جال" میں بدل دیا ہے، جیسا کہ فلسطینی امداد کے متلاشیوں نے ان کو ان گنت گواہیوں میں بیان کیا ہے۔
فلسطینی کئی مہینوں سے یہ بیان کر رہے ہیں کہ کس طرح اسرائیلی فوج امداد کے متلاشیوں پر گولیاں چلاتی ہے، یہاں تک کہ انہیں اندر جانے کا حکم دینے کے بعد بھی؛ کس طرح انہیں مویشیوں کی طرح تنگ باڑ والی راہداریوں میں جمع کیا جاتا ہے اورمنصوبہ بند افراتفری کے تناظر میں کھانے کے ڈبوں کے لیے لڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ لیکن ان گواہیوں کو بڑی حد تک کوئی توجہ نہیں دی گئی باوجود اس کے کہ ان مقامات کے قریب 500 سے زیادہ افراد ہلاک اور سیکڑوں لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ یہ حقیقت کہ اقوام متحدہ اور متعدد دیگر فلاحی تنظیموں نے غیر جانبداری اور بنیادی انسانی معیارات کی خلاف ورزیوں کا حوالہ دیتے ہوئے جی ایچ ایف کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کر دیا اور جی ایچ ایف کے منصوبے کو “نسلی صفائی کا خاکہ ” قرار دیا ہے، نے عوامی رائے میں بمشکل ہی کوئی اثر ڈالا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ "امریکہ کی مدد سے جاری یہ امدادی کارروائی فطری طور پر غیر محفوظ ہے۔" ''یہ لوگوں کو کی جان لے رہا ہے۔''
اس کے بعد،ہاریٹزنے جون کے آخر میں ایک خبر شائع کی جس میں اسرائیلی فوجیوں کی براہ راست گواہیوں کو اجاگر کیا گیا جو ان باتوں کی تصدیق کرتی ہے جو فلسطینی کئی ہفتوں سے کہہ رہے تھے: فوجیوں کو جی ایچ ایف کے امدادی مقامات پر نہتے شہریوں کو گولی مارنے کے واضح احکامات دیے گئے تھے۔ قتل عام حادثات نہیں تھے، بلکہ ہدایات تھے۔
اس میں، ہاریٹز نے نئے حقائق کو بے نقاب نہیں کیا، اس نے صرف وہی دہرایا جو ہم پہلے ہی بے اثر چیختے رہے ہیں۔ لیکن چونکہ یہ الفاظ اسرائیلی منہ سے نکلے تھے اس لیے انہیں سنجیدگی سے لیا گیا۔
اس رپورٹ نے فوری طور پر عالمی توجہ حاصل کی۔ ریوئٹرز، اے پی، اور اے ایف پی نے فالو اپ رپورٹیں شائع کیں، اور یہاں تک کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو اور وزیر دفاع اسرائیل کاٹز کو بھی اس رپورٹ کی مذمت کرنے پر مجبور کیا گیا۔
ہمارے مصائب کو تب تسلیم کیا گیا جب ہمارے ظالموں نے اس کا اعتراف کیا۔ پہلے ہم نے فوٹیج پوسٹ کیے. پہلے ہم نےگواہیاں پیش کیں۔ پہلے ہم نے اپنے غم کوبراہراست نشر کیا۔ لیکن کسی نے ہم پر یقین نہیں کیا۔
جی ایچ ایف کے قیام اور غزہ میں اسرائیل کی حال ہی میں تیز کی گئی فاقہ کی پالیسی سے قبل، امداد کی تقسیم اقوام متحدہ کے زیر انتظام 400 مراکز کے ذریعے کی جاتی تھی۔ یہ نظام سادہ اور موثر تھا: کنبوں کو سامان وصول کرنے کے اوقات کی اطلاع ایس ایم ایس کے ذریعہ موصول ہوتی تھیں، اور کھانا ایک گھنٹے کے اندر تقسیم کر دیا جاتا تھا۔
اس کے برعکس، جی ایچ ایف کے مقامات فوجی علاقے ہیں جن کی کوئی نگرانی نہیں کی جاتی ہے، جہاں امداد کے متلاشی افراد کو پنجروں میں ہانکا جاتا ہے جو یہ امید کررہے ہوتے ہیں کہ وہ دروازے بند ہونے یا فوجیوں کی فائرنگ شروع ہونے سے پہلے خوراک تک پہنچ جائیں گے۔ تقسیم کے اوقات کا اعلان فیس بک پیج کے ذریعے غیر متوقع طور پر کیا جاتا ہے، کبھی کبھی صرف پانچ یا دس منٹ کے نوٹس کے ساتھ۔ ایک روز دروازے صبح ۸ بجے کھلتے ہیں، کسی روز آدھی رات کو یا کبھی بالکل نہیں۔
''مجھے گھر کھانا لانے کے لیے کئی بار وہاں جانا پڑا،'' 18 سالہ ناجی حماد نے کہا جو اپنی فیملی کو کھلانے کے لیےٹھنڈے پانی کے 200 پیکٹ بیچنے کے لیے روزانہ تقریبا 10 گھنٹے دھوپ میں کھڑے رہتے ہیں۔ ''ہمارے پاس سفید آٹا نہیں ہے، پھلیاں نہیں ہیں، یہاں تک کہ دال بھی نہیں ہے۔ ہر چیز نا قابل یقین قیمتوں پر فروخت کی جا رہی ہے۔"
حماد کے قریب ترین جی ایچ ایف سائٹ نیٹزاریم کوریڈور کے قریب ہے، جو ان کی پناہ گاہ سے تقریبا دو کلومیٹر دور ہے۔ انہیں وہاں تک پیدل پہنچنے میں تقریبا ۳۰ منٹ لگتے ہیں۔ بعض راتوں کو وہ داخلی دروازے کے پاس سوتے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ وہ قطار میں سب سے پہلے ہوں گے۔ مگر وہ بھی رسائی کی یقین دہانی نہیں کراتا۔
"آخری بار جب میں گیا تھا تو میں نے قسم کھائی تھی کہ میں دوبارہ نہیں جاؤں گا،" انہوں نے کہا۔ "یہ ہنگامہ خیز تھا۔. میں نے سوچا کہ میں مر جاؤں گا۔ میں نے خود کو زمین پر پایا. ہر کوئی بھاگ رہا تھا، دھکا دے رہا تھا، کھانا لینے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں خالی ہاتھ گھر واپس آیا۔"
یہاں تک کہ ان لوگوں کے لئے بھی خطرہ ختم نہیں ہوتا ہےجو خوراک کے پیکج حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ حماد نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ "بعض اوقات چاقو کے ساتھ مرد باہر انتظار کررہے ہوتے ہیں۔" "وہ آپ کو دھمکی دیں گے. اگر آپ مزاحمت کرتے ہیں، تو وہ آپ کو ماریں گے یا اس سےبھی بدتر سلوک کریں گے۔ میں نے ایسا ہوتے دیکھا ہے۔''
پوری آزمائش قسمت پر منحصر ہے. اگر آپ خوش قسمت ہیں تو آپ کو کھانے کا پیکج ملتا ہے اور آپ لوٹ مار کرنے والوں سے بچ جاتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے، تو آپ مٹھی بھر پاستا یا دال کو زمین سے اٹھا کر ایک بیگ میں ڈالتے ہیں اور اسے گھر لے جاتے ہیں، اس امید میں کہ اسے صاف کریں گے اور اپنے گھر والوں کو کھلا سکیں گے۔ لیکن تشدد یہیں ختم نہیں ہوتا ہے۔ اسرائیلی فوجی اور ٹینک امدادی مراکز سے محض چند میٹر کے فاصلے پر تعینات ہیں، اور ان کی رائفلیں بھیڑ کی طرف مرکوز ہیں۔ بغیر کسی وارننگ کے گولیاں اڑتی ہیں، گیس کنستر پھٹتے ہیں اور خوف و ہراس پھیل جاتا ہے۔
ناجی حماد کی کہانی ان بہت سی کہانیوں میں سے ایک ہے، کیونکہ زندہ بچ جانے والے کئی ہفتوں سے اپنی کہانیاں بیان کر رہے ہیں۔ گرافک فوٹیج سوشل میڈیا پر پھیل گئی ہے۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑا- کوئی نہیں سن رہا تھا۔
جی ایچ ایف کے "قتل گاہوں" کے بارے میں ہاریٹز کی کہانی منظر عام پر آنے کے چند دن بعد، ایسوسی ایٹڈ پریس نے ایک اور دھماکہ خیز خبر شائع کی: جی ایچ ایف کے مقامات کے قریب فائرنگ کے واقعات میں نجی فوجی کمپنیوں کے ذریعے ٹھیکہ پانے والے امریکی کرائے کے فوجی بھی ملوث تھے۔ افشاں ہونے والی اندرونی مواصلات، عینی شاہدین کے بیانات اور ویڈیو شواہد پر مبنی اس رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ امریکی شہری اسرائیلی افواج کے ساتھ مل کرعام شہریوں کو نشانہ بنا رہے تھے ۔
جی ایچ ایف کا جوابصاف انکار تھا، جس میں اس خبر کو غلط قرار دے کر مسترد کر دیا گیا، بالکل اسی طرح جیسے انہوں نے غزہ کے ہر ویڈیو، گواہی اور براہ راست نشریات کے ساتھ کیا ہے۔
اور پھر بھی، مجھے اب انکشافات کی پرواہ نہیں ہے. مجھے اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ کسی اخبار کو آخرکار ہمدردی ہوئی ہے، یا کیا ایک اور تحقیق اس بات کی تصدیق کرتی ہے جو ہم مہینوں سے جانتے ہیں۔ مجھے صرف نتائج کی پرواہ ہے۔
مجھے پرواہ ہے کہ کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا ہے. ہلاکتوں کی تعداد میں کمی نہیں آئی ہے۔ امداد میں اضافہ نہیں ہوا ہے. 600 دن کی جنگ کے بعد بھی میرے بچے کے کانوں میں 'فائر بیلٹس' اور ڈرون کی آواز گونج رہی ہے۔
دریں اثنا، اسرائیل روزانہ غزہ کے 100 سے زائد شہریوں کو ہلاک کر رہا ہے، کچھ امدادی قطاروں میں، کچھ پناہ گاہوں میں، اوربیشتر خاموشی میں۔
نور الیاکوبی غزہ میں مقیم مترجم و مصنف ہیں۔