عبدالسلام عودۃ اور ان کی اہلیہ گزشتہ تین ماہ سے ایک بس میں رہ رہے ہیں۔ اس سال کے اوائل میں اسرائیلی فوج کی جانب سے طولكرم پناہ گزین کیمپ میں واقع ان کے آبائی گھر سے بندوق کی نوک پر نکالے جانے کے بعد اس جوڑے کے پاس جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں بچی تھی اور نہ ہی کرایہ ادا کرنے کا کوئی ذریعہ تھا۔
لیکن مایوسی اکثر ایجاد کے نئے در وا کر دیتی ہے اور 71 سالہ عودۃ کے لیے اس کا مطلب تھا ایک پرانی گاڑی کے حصوں کو جمع کرکے اسے ایک گھر میں تبدیل کرںا۔
انہوں نے چھوٹی سی بس کے اندرونی حصے کو ایک خواب گاہ میں تبدیل کردیا اور اسٹیل کی چادروں کا استعمال کرتے ہوئے ایک چھوٹا سا باورچی خانہ شامل کر لیا۔
"یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم صبر کریں اور ثابت قدم رہیں۔ ہماری بے دخلی برقرار نہیں رہے گی، چاہے یہ جتنے عرصے تک جاری رہے،"عودۃ نے بس میں سےمونڈوئیس کو بتایا۔
"قابض قوت ہمیں مکمل طور پر بے دخل کرنا چاہتی ہے۔ وہ صرف 1948 اور 1967 کی مقبوضہ زمینیں نہیں بلکہ فلسطین کے ہر ایک حصے پر قابض ہونا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ یہ سب ایک 'یہودی ریاست' کا حصہ ہوں۔ اور انشاء اللہ ایسا نہیں ہوگا،" انہوں نے آگے کہا۔
نقل مکانی اور غربت کے درمیان اس جوڑے نے زندگی کے لمحے تراش لیے ہیں۔ انہوں نے پھٹے ہوئے ترپالوں سے کپڑوں کی دیواریں بنائیں اورپرانی گاڑی کے پہیوں کو گلدان میں بدل دیا جو اب رنگوں سے کھل رہے ہیں۔
لیکن یہ دشواری کے بغیر نہیں ہے۔ ڈھانچہ ایک طرف سے کھلا رہتا ہے، جو بہت کم پردہ یا تحفظ فراہم کرتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے گھر کے اندر بھی، ان کی بیوی کو پردے میں رہنا پڑتا ہے۔ موسم گرما کی شدید گرمی اور سرما کی سخت سردی بغیر کسی روک ٹوک کے اندر آ جاتی ہے۔ ان کا تقریباً سارا سروسامان، بشمول بس خود، انہیں ہمدرد ہاتھوں نے عطیہ کیا تھا۔
''ہم لکڑی کی آگ پر کھانا پکاتے ہیں اورابتدائی نوعیت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ایسے بھی دن ہوتے ہیں جب ہمارے پاس کھانا نہیں ہوتا۔ میرے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے،'' عودۃ نے وضاحت کی۔ ''ہمیں اپنی بیوی کی شادی کی انگوٹھی بیچنی پڑی۔"
عودۃ کی حقیقت شمالی مقبوضہ مغربی کنارے میں سامنے آنے والے ایسے انسانی بحران کی عکاسی کرتی ہے جو صرف بگڑتا جا رہا ہے۔
وہ کم از کم 42,000 فلسطینیوں میں سے ایک ہیں جنہیں قابض افواج نے جنوری کے اواخر میں شروع ہونے والے اسرائیلی فوجی حملے کے پہلے مہینے میں طولكرم اور جنین کے تین پناہ گزین کیمپوں سے نکال دیا تھا۔
بہت سے لوگ مساجد، اسکولوں اور دیگر پناہ گاہوں میں پھنسے ہوئے ہیں، کیونکہ تاریخ خود کوسفاکی سے دہرا رہی ہے۔ ان کیمپوں میں رہنے والے فلسطینی 1948 کے نكبة کے زندہ بچ جانے والے لوگ اور ان کی اولادیں ہیں جو راتوں رات سڑکوں پر پھینک دیے گئے تھے۔ یہ لوگ دوبار بے دخل کیے جا چکے ہیں جن میں سے بیشتر کے پاس ان کے جسم پر موجود کپڑے اور نسلی بے دخلی کے بوجھ کے سوائے کچھ نہیں تھا۔
"طولكرم کی صورت حال تباہ کن ہے۔ اگرچہ مقامی اور بین الاقوامی تنظیمیں نیز فلسطینی اتھارٹی بھی مدد کررہی ہیں، لیکن صورتحال ہماری اہلیت سے تجاوز کر گئی ہے۔ طولکرم شہر اتنی بڑی تعداد میں بے گھر افراد کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔" طولكرم میں فلسطینی ہلال احمر سوسائٹی کی ڈائریکٹر منال الحفی نے مونڈوئیسکو بتایا۔
''لوگ ہر روز مدد مانگ رہے ہیں، چاہے وہ پیسے کے لیے ہوں، انسانی امداد کے لیے ہوں، یا کھانے کے لیے۔ خاندانوں کو الگ کر دیا گیا ہے، ماں اور بچے ایک جگہ اور والد دوسری جگہ رہ رہے ہیں،” انہوں نے بات جاری رکھی۔
ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی جانب سے رواں ماہ کے اوائل میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق جو کہ جنین اور طولكرم پناہ گزین کیمپوں کے تقریباً 300 بے گھر رہائشیوں کے انٹرویوز پر مبنی ہے، 47 فیصد سے زیادہ جواب دہندگان کو خوراک اور پانی تک ناپائیدار یا بالکل رسائی حاصل نہیں تھی۔ تنظیم نے انسانی امداد میں فوری اور ہنگامی اضافے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کی اکثریت مدد کے لیے پہلے سے دباؤ کے زیر اثر مقامی آبادیوں پر انحصار کر رہی ہے۔
اگرچہ اوسلو معاہدے کے تحت مقبوضہ مغربی کنارے کے شہروں کو فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کی زیر انتظام ہونا تھا، لیکن اسرائیل نے گزشتہ چھ ماہ سے جنین اورطولكرم پر دوبارہ براہ راست فوجی کنٹرول بحال کرلیا ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ دیگر اسرائیلی اقدامات کے درمیان مقبوضہ مغربی کنارے کے باضابطہ الحاق کی طرف پہلا قدم ہے، جیسے غزہ پر جنگ کے بعد سے فلسطینی زمین پر بڑے پیمانے پر قبضہ کرنا، اور شہروں سے باہر دور دراز علاقوں میں درجنوں فلسطینی بیدون گاؤں کو بے دخل کرنا۔ الحاق کے واضح اقدامات کے ساتھ، حکومت کے اعلیٰ وزیر بیزل سموٹریچ نے غیر قانونی بستیوں کو وسعت دینے، فلسطینی ریاست کی حیثیت کو روکنے، اور اسرائیلی کنٹرول کو مضبوط بنانے کے لیے"فیصلہ کن منصوبہ" کو فروغ دیا ہے۔
جنین اور طولكرم میں اسرائیلی حملے ممکنہ الحاق سے قبل فلسطینی سرزمین کو اس کے باشندوں سے صاف کرنے کی مجموعی اسرائیلی حکمت عملی کا ایک حصہ ہیں۔ مغربی کنارے کے شمالی شہروں میں اسرائیلی فوجی کارروائی 1967 کے قبضے کے بعد مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی سب سے بڑی جبری بے دخلی اور 2000 کی دوسری انتفاضہ کے بعد سب سے طویل فوجی آپریشن ثابت ہوئی ہے۔
سیکڑوں گھروں کو ان کے مکینوں کے فرنیچر و ذاتی سامان سمیت منہدم کر دیا گیا ہے۔ انہیں اسرائیلی فوج کو "آزادانہ نقل و حرکت" اور "عملیاتی سہولت" فراہم کرنے کے بہانے کے تحت 25 میٹر لمبی سڑکوں میں تبدیل کردیا گیا ۔ اس تباہی نے ہزاروں خاندانوں کو بے گھر کر دیا ہے، نتیجتاً ان کے پاس تشدد ختم ہونے کے بعد واپس لوٹنے کے لیے کچھ نہیں بچا ہے۔
''کیمپوں کے اندر 70 فیصد گھر ناقابل رہائش ہیں۔ جو تباہ نہیں ہوئے انہیں جلا دیا گیا اور جو جلے نہیں ان کی بنیادیں متاثر ہوئیں ہیں" ہلال احمر سے تعلق رکھنے والی الحفی نے کہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ "غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ اس کی ایک چھوٹی سی مثال ہے۔"
چار بچوں کے والد نصراللہ نصراللہ نے مونڈوئیس کو بتایا کہ جولائی کے وسط میں ان کا گھر منہدم کر دیا گیا تھا۔ وہ اب بھی ایک ایسے گھر کے لیے بینک کو پانچ سال کی رہن کے مقروض ہیں جس کا اب کوئی وجود نہیں ہے۔
''میں مشکل سے اپنی ضروریات پوری کر پاتا ہوں۔ میں اپنے تباہ شدہ گھر کی ادائیگی کیسے کروں، کرایہ کہاں سے دوں، اور اپنے بچوں کے لیے خوراک کیسے مہیا کروں؟'' 36 سالہ نصراللہ نے کہا۔ ''میرا گھر اب ایک سڑک بن چکا ہے۔''
انہوں نے مخالف پہاڑی پر واقع کیمپ میں بڑے پیمانے پر ہوئی تباہی کی طرف اشارہ کیا جہاں زمین کا ایک مسمار شدہ حصہ گھنے آباد مکانوں کے درمیان سے سیدھا گزر رہا تھا۔ "ایسا اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ مقبوضہ قوت کی گاڑیاں یا جب پی اے ذمہ داری لے تو با آسانی ہمارے کیمپ سے گزر سکیں۔"
''یہ کوئی سڑک نہیں ہے۔ یہ بین گوریون ہوائی اڈے سے بھی بڑا ہے۔ ایک ہوائی جہاز یہاں اتر سکتا ہے، "انہوں نے بات جاری رکھی.
کئی فلسطینیوں کی طرح اتنی تباہی برداشت کرنے کے باوجود نصراللہ صرف دو گھنٹے دور واقع غزہ میں اسرائیل کے ذریعہ کیے جانے والی خوفناک نسل کشی کے پیش نظر کچھ کہنے سے ہچکچا تے ہیں۔
"میں اپنے دکھ کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں لیکن میں ہچکچاتا ہوں۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں میں اس شہید کو جو قبر میں آرام کررہا ہے یا اس ماں کو جس نے اپنے بچے کو دفن کیا تھا، کا دل نا دکھا دوں ۔ مجھے خدشہ ہے کہ اگر کوئی قیدی یہ انٹرویو دیکھے تو میری باتیں اُس کے لیے اتنی معمولی شکایت محسوس ہوں گی کہ سننا بھی بوجھ لگے،" نصراللہ نے کہا۔
"ہمارے گھرنہیں ہیں، لیکن ہمارے بچے ہمارے ساتھ ہیں۔ ہمارے پاس انہیں کھلانے کے لیے کھانا ہے۔"
زینا الطحان مقبوضہ یروشلم میں مقیم ایک فری لانس ٹی وی رپورٹر اور مصنفہ ہیں۔