"متنازعہ" وہ لفظ ہے ،جو عام طور پر جنرل سر فرینک کٹسن کی زندگی اور میراث کو بیان کرنے والی موت کی یادگاروں میں استعمال کیا جاتا ہے- اپنی نسل کا سب سے زیادہ اعزاز یافتہ برطانوی فوجی جو 2 جنوری کو 97 سال کی عمر میں فوت ہوا ۔
"گزشتہ برسوں میں کسی نے بھی جنرل فرینک کٹسن سے زیادہ شدید اورطویل المدتی تنازعات پیدا نہیں کیے ہیں، وہ ایک مختصرالوجود ، سخت گیر ، ابھری ٹھوڑی، ناک سے بولنے والی آواز والی شخصیت کا حامل تھا ، جس کو روزمرہ کی رسمی گفتگو ناپسند تھی ۔"
ڈیلی ٹیلی گراف نے اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا - "انہیں اپنی نسل کے سب سے قابل اور متنازعہ فوجیوں میں سے ایک سمجھا جاتا تھا، اور انسداد بغاوت کارروائیوں میں ان کی مہارت شاید بے مثال تھی ۔"
اسے حاصل ہونے والی بہت سی تعریف و توصیف میں بہت کم توجہ ان سیاستدانوں اور حکومتی جاسوسوں پر دی گئی تھی جنہوں نے اسے کینیا، ملایا، عمان، قبرص اور شمالی آئرلینڈ کے لوگوں پرنازل کروایا تھا –وہ ان سب کو وہ اپنے فوجی نظریات کی جانچ کرنے کے لئے لیبارٹری چوہوں سے زیادہ حیثیت کا حامل نہیں سمجھتا تھا-
پچھلے 43 سالوں سے آرڈر آف دی باتھ کا ایک ممبر (اسے حاصل ہونے والے ‘اعزازات‘ کی فہرست میں بہت طویل ہے-) کٹسن جولائی 1982 سے برطانیہ کی لینڈ فورسز کے کمانڈر انچیف اور 1983-1985 میں ملکہ الزبتھ II کے معتمد خاص بن گئے ۔
ستر کی دہائی میں، شمالی آئرلینڈ میں تشدد کے ابتدائی دنوں میں ان کا کردار بہت اہمیت کا حامل رہا- لیکن حال ہی میں 2006 میں امریکی جنرل ڈیوڈ پیٹریاس (اس وقت عراق میں امریکی سینٹرل کمانڈ اور اتحادی افواج کے کمانڈر) بظاہر مشورے کے لئے ڈیون میں کٹسن کے گھر کادورہ کیا۔
دائیں بازو کے افراد کے لئے وہ انسداد دہشت گردی کے لئے ایک دور اندیش اور ذی حیثیت شخصیت کاحامل تھا ۔ جبکہ بائیں بازو والوں کے لئے، وہ ایک ڈروانا خواب تھا- بائیں بازو کے ایک جریدے نے اسے "سلطنت کے ناکام بوٍٹ بوائے" کے نام سے منسوب کیا ہے ۔
تاہم، وہ لندن میں اپنے آقاؤں کو حساب کتاب دینے میں ناکام رہتا ہے –
نیروبی سے بیلفاسٹ
1972 کے اوائل میں، بیلفاسٹ میں کٹسن کی شہرت ایسی تھی کہ "اس ہفتے" نامی میگزین ( جوخود کو "آئرلینڈ کا کوالٹی نیوز میگزین" سمجھتا ہے ) نے سرورق پر کٹسن کی مسکراتی ہوئی تصویر کو شائع کیا ،جس کی سرخی تھی "آئی آر اے کے خلاف کٹسن کی جنگ" نیز اندورنی صفحات پر ، سات صفحاتی مضمون بھی شائع کیا ۔
اعتدال پسند قوم پرست سوشل ڈیموکریٹک اینڈ لیبر پارٹی (ایس ڈی ایل پی) کے بانی ممبر، پیڈی ڈیولن نے کہا کہ کٹسن نے شمالی آئرلینڈ میں " کیتھولک کمیونٹی اور سیکیورٹی فورسز کے مابین تعلقات کو خراب کرنے کے لئے شاید کسی بھی دوسرے فرد سے زیادہ کام کیا "۔
کٹسن نے 1950 کی دہائی کے اوائل میں کیکویو لینڈ اینڈ فریڈم آرمی (انگریز اسے "ماؤ ماؤ" کے نام سے موسوم کرتے ہیں ) کے خلاف لڑتے ہوئے، کینیا میں اپنے تجربات کو بیلفاسٹ میں استعمال کیا ، جہاں انہوں نے "تبدیل" یا "تبدیل شدہ" باغیوں کو "انسداد گینگ" میں استعمال کرنے کے عمل کو بڑھاوا دیا۔
اپنی کتاب "گینگس اینڈ کاؤنٹر گینگس" میں کٹسن لکھتا ہے : "بے شمار طریقے ہیں جن میں (انسداد گینگس کا) اصول لاگو کیا جا سکتا ہے اور یہ ان لوگوں پر منحصر ہے جو اس طرح کے طریقوں کو ایجاد کریں یا اپنایں، جو صورتحال سے متعلق ہو ں۔"
کیکوو کی بغاوت میں ایک اندازے کے مطابق 90،000 کینیا ئی باشندوں کو قتل کیا گیا تھا جبکہ ایک گشتی پھانسی گھاٹ پر ایک ہزار سے زیادہ افراد کو پھانسی دی گئی تھی ۔ تقریباً 160,000 افراد کو حراستی کیمپوں میں رکھا گیا جہاں ان پر تشدد معمول کی بات تھی ۔
برطانیہ کے مظالم کے نتیجے میں ، متاثرین میں سے ایک امریکی صدر بارک اوباما کے دادا، حسین اونانگو اوباما تھے، جنہیں 1949 میں گرفتار کیا گیا تھا، اور ان کی انگلیوں کے نیچے پنیں ڈال کرتشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔
جنگلی جانور
کٹسن نے بعد میں اپنی یادداشتوں، گروپ آف فائیومیں لکھا، "زیادہ تر فوجیوں نے [Mau Mau] کو اسی طرح تلاش کیا اور ٹھکانے لگایا ، جس طرح کسی خطرناک جنگلی جانور کو شکار کیا جاتا ہے ۔"
شمالی آئرلینڈ میں، کٹسن نے فوجی رد عمل فورس کی تشکیل کرتے ہوئے کینیا کے اپنے تجربے کو دوہرانے کی کوشش کی ۔
یہ فورس خفیہ یونٹس پر مشتمل تھی جو مقامی "پراکسیز" کے ساتھ رابطہ میں تھے تاکہ گھناونے طور پرقتل عام برپا کر سکیں، ریپبلکن نیم فوجی گروپوں کے اندر اختلافات کو ہوا دیں،اس کے ساتھ ہی "مشتبہ کمیونٹی" کی بڑے پیمانے پر اسکریننگ کرسکیں-
سابق ایس اے ایس کے عہدے دار ٹونی گیراگتی کا دعوی ہے کہ، شمالی آئرلینڈ میں 1971 کے موسم بہار تک، برطانوی حکام، جو آئی آر اے میں گھسنے کے لئے بے چین تھے، نے کٹسن کے انسداد گینگ کے حربوں کو اپنا کر ایسا کیا ۔
کٹسن نے خود دسمبر 1971 میں لکھا تھا کہ آئی آر اے کے خلاف کامیابی حاصل کرنا ، بنیادی تبدیلی کے بغیر مشکل ہوگا اور "ہم ایم آر ایف کی تعمیر اور ترقی کےذریعے ایسا کرنے کے لئے اقدامات کر رہے ہیں- "
مہلک سبق
تاہم، اس کا نتیجہ آئی آر اے کی شکست نہیں تھی ( آئی آر اے تحریک مزید 30 سالوں تک جاری رہی) بلکہ خواتین اور نوعمروں سمیت غیر ملوث شہریوں کی ہلاکت، اور برطانیہ کے حفاظتی نظام سے کیتھولک برادری کی مزید علیحدگی تھی ۔
اپریل 1975 میں، آئی آر اے کے مخالف کیتھولک پادری، فادر ڈینس فاؤل نے لکھا کہ "برطانوی، لوگوں کو یہ ایک مہلک سبق دے رہے ہیں کہ طاقت ، بندوق کی بیرل سے نکلتی ہے... اور کہ پولیس اور فوج ان کے اعتماد کو دھوکہ دے سکتی ہے اور وہ حکومت اور عوام کے غیر جانبدار خادم نہیں بن سکتے ہیں ۔"
کم شدت کے آپریشنز کے بارے میں کٹسن نے بے شرمی سے لکھا کہ، اگرچہ مخالفین سے لڑتے وقت قانون کا احترام کیا جانا چاہئے، لیکن اسے حالات کے مطابق تبدیل کیا جاسکتا ہے تاکہ "عوام کے ناپسندیدہ ممبروں کو ٹھکانے لگایا جا سکے، جو پروپیگنڈے کے احاطے سے تھوڑا سا زیادہ ہو" ۔
اس سے بھی زیادہ مکروہ اسی کتاب کا ایک اور حوالہ ہے، کہ اگر "مچھلی (دہشت گرد)کو تباہ کرنا ضروری ہے " لیکن اگر "براہ راست راڈ یا جال سے" ایسا کرنا ، ناممکن ہے تو "مچھلی کو مارنے کے ممکنہ طور پر پانی کو زہر آلود کیا جاسکتا ہے " ۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک پوری کمیونٹی مثلا شمالی آئرلینڈ میں قوم پرست کمیونٹی کو دہشت زدہ کرنے کا ایک عام جواز ہے،اس امید کے ساتھ کہ یہ اپنے فرضی محافظوں، پارلیمنٹیرین ، ریپبلکن پیراملٹریز مثلا IRA کو مسترد کردے گی ۔
جولی گڈ مینز
جب خونی اتوار کی انکوائری کے ساویل ٹربیونل کو ثبوت دینے کے لئے بلایا گیا تو، کٹسن نے کہا کہ فرسٹ پیراشوٹ رجمنٹ کی مددگار کمپنی کے فوجی، جنہوں نے 14 غیر مسلح شہری حقوق کے حفاظت کرنے والوں کو ہلاک کیا، "جولی گڈ میں" بہت اچھے لوگ تھے جنہوں نے "قدرتی ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، بموں اور فسادات کے متاثرین کو تسلی دی اور ان کی مدد کی ۔"
کٹسن نے اس رپورٹ کو "مکمل کچرا" قرار دیا ، جس میں بتایا گیا ہےتھا کہ وہ اس غیر قانونی مارچ کے منصوبے میں شامل تھا جس پر بعد ازاں حملہ ہوا ، اور جس نے آئی آر اے کو اپنا دفاع کرنے پر مجبور کیا- تاکہ فوجی "اسنیچ اسکواڈ" کو مشتبہ نیم فوجیوں کی گرفتاری کے لئے بھیجا جاسکے ۔
یہ کہنا ناممکن ہے کہ آیا ایک عمر رسیدہ کٹسن نے اپنے کیریئر کو کامیابی یا ناکامی سمجھا ۔
اگرچہ وہ فوجی ترقی کی چوٹی پر پہنچ گیا اور اس کے اعزاز میں ایک ریاستی یادگار مناسب وقت پر منعقد ہونا ہے، لیکن کیا اس نے کینیا کے حالیہ دورے پر بادشاہ چارلس کی باتیں سنیں ؟
ریاستی عشائیہ میں، چارلس نے برطانوی مظالم کے لئے معافی تونہیں مانگی – لیکن ملک کی آزادی کی جدوجہد کے دوران کینیا کے خلاف "نفرت انگیز اور بلاجواز پرتشدد کی کارروائیوں" کے لئے اپنے "گہرے افسوس" کا اظہار کیا ۔
: این کیڈوالڈر گزشتہ 40 سالوں سے آئرلینڈ، شمالی اور جنوبی میں ایک صحافی ہیں، وہ بی بی سی، آر ٹی ای، دی آئرش پریس، اور رائٹرز کے لیے کام کرتی ہیں ۔ اس سے قبل وہ آئرلینڈ میں تنازعہ کے غیر متشدد حل کی وکالت کرنے والے ایک غیر جماعتی سیاسی، فرقہ وارانہ انسانی حقوق کے گروپ "PAT Finucane Centre