War & Peace

اسرائیل غزہ پردوبارہ غیر معینہ مدت تک قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اصل میں اس کا مطلب یہاں ہے.

اسرائیلی جنگی کابینہ نے اتوار کے روز متفقہ طور پر غزہ پر اسرائیل کی جنگ میں توسیع کی منظوری دے دی، جس میں مبینہ طور پر غزہ پٹی پر غیر معینہ مدت تک دوبارہ قبضہ کرنے کے منصوبے بھی شامل ہیں۔
 اسرائیل کی جنگی کابینہ نے غزہ میں اپنی فوجی مہم کو وسعت دینے کے منصوبوں کی منظوری دے دی ہے، جس کا مقصد مکمل دوبارہ  قبضہ اور طویل مدتی قابو ہے، ساتھ ہی بڑے پیمانے پر عمارتوں کی مسماری اور زبردستی بے دخلی کی "رفح حکمتِ عملی" کی پیروی کی جا رہی ہے۔ یہ اقدام نسلی صفائی کے سخت گیر مطالبے سے مطابقت رکھتا ہے، کیونکہ بھوک اور ناکہ بندی غزہ کے انسانی بحران کو مزید خراب کر رہا ہے۔

اسرائیلی حکام کے حوالے سے خبروں کے مطابق اسرائیلی جنگی کابینہ نے 4 مئی 2025 کو متفقہ طور پر غزہ پر اسرائیل کی جنگ میں توسیع کی منظوری دی ہے۔ حکام کے مطابق جنگ کے توسیعی منصوبے کا مقصد غزہ پر دوبارہ قبضہ کرنا اور غیر معینہ مدت تک اس پر قابو برقرار رکھنا ہے۔ یہ منظوری اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو کے اس بیان کے چند روز بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ جنگ کا بنیادی مقصد "حماس کو شکست دینا" ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی ایک ثانوی ہدف تھا۔ اس خبر کی تصدیق پیر کو  ایسوسی ایٹڈ پریس نے کی، جس نے دو اسرائیلی عہدیداروں سے بات کی۔

حالیہ ہفتوں میں حکومتی عہدیداروں کے اقتباسات سے ظاہر ہوتا ہے کہ  کاروائیوں میں وسعت کی اسرائیل کی رفح حکمت عملی کو پورے غزہ  میں دہرایا جائے گا۔ رفح میں، اسرائیلی افواج نے شہر کو ملبے میں تبدیل کر تمام فلسطینیوں کو شہر چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس نظیرکےقائم ہونے کے ساتھ، نیا منصوبہ اسرائیل کے غزہ سے تمام فلسطینیوں کی نصلی صفائی کرنے کے اگلے قدم کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے   ۔

غزہ پر دوبارہ قبضہ

تین ہفتے قبل، اسرائیلی میڈیا نے فلسطینی محصور علاقے کے اندر مستقل فوجی زون بنا کر غزہ پٹی کو پانچ علاقوں میں تقسیم کرنے کے منصوبے کا انکشاف کیا تھا۔ وسط مارچ میں اسرائیل کی جانب سے جنگ کے دوبارہ آغاز کے بعد سے، اسرائیلی افواج نے 'موراگ کوریڈور' نامی فوجی راہداری بنا کر رفح کے جنوبی علاقے کو مکمل طور پر علیحدہ کر دیا ہے، جو کہ غزہ پٹی کو مشرق سے مغرب تک عبور کرتی ہے اور رفح کو خان یونس سے کاٹ دیتی ہے، جہاں لاکھوں بے گھر فلسطینی فی الحال پناہ لیے ہوئے ہیں۔

کابینہ کی جانب سے نئے منصوبوں کی منظوری کے باوجود نیتن یاہو نے ان کا باضابطہ اعلان نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے اصل منصوبے قیاس آرائیوں کا شکار ہیں۔ اسرائیلی 'کان ریڈیو' کے مطابق غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں میں توسیع جنگ کی بحالی کے بعد سے رفح میں اسرائیلی فوج کی حکمت عملی کی عکاسی کرے گی۔ رفح کو الگ تھلگ کرنے کے علاوہ، اسرائیلی فوج بڑے رہائشی بلاکس کو مسمار یا دھماکے سے اڑا کر شہر کو ختم کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے، جس سے پورا شہر ملبے میں تبدیل ہورہا ہے۔ اسرائیلی فوج نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وہ رفح کو اپنے نئے توسیع شدہ فوجی بفر زون کا حصہ بنائے گی۔

ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے ایک بیان میں اسرائیل کے وزیر جنگ اسرائیل کاٹز نے اس کارروائی کو "غزہ کو مزید چھوٹا اور الگ تھلگ بنانے" کے طور پر بیان کیا۔ یہ حکمت عملی اس وقت وجود میں آنا شروع ہوئی جب اسرائیل حماس کے ساتھ جنگ بندی کے نئے معاہدے تک پہنچنے کے لیے مصر اور قطر کے ذریعے بلاواسطہ مذاکرات میں مصروف تھا۔ اسرائیل نے حماس کو غیر مسلح کرنے کی شرط رکھی تھی، جسے فلسطینی فریق نے مسترد کر دیا۔ اسرائیل نے بھی جنگ بندی کے عہد سے انکار کر دیا۔

اتوار کے روز جنگی کابینہ کا اجلاس ایک ایسے وقت میں آیا جب فلسطینی گروہ کی جانب سے مزاحمت میں اضافہ ہوا، جنہوں نے گذشتہ ہفتے رفح اور بیت حنون میں اسرائیلی افواج پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں اسرائیل نے چار فوجیوں کی ہلاکت اور متعدد دیگر کے زخمی ہونے کا اعتراف کیا۔ دریں اثنا، اسرائیل نے فلسطینی قصبوں اور شہروں پر شمال سے لے کر جنوب تک بمباری جاری رکھی۔ صرف پیر کی صبح، بیت لاحیہ، غزہ شہراور خان یونس میں اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی یومیہ تعداد 20 تھی۔

غزہ کو نسلی طور پر پاک کرنے کی 'رفح حکمت عملی'

غزہ کے دوبارہ مکمل قبضے کے علاوہ، فلسطینیوں کو پٹی سے باہر نکالنے کا اسرائیل کے دیرینہ مقصد کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔  کابینہ میں نیتن یاہو کے اتحادی، خاص طور پر بیزلل سموٹریچ اور اتمار بین گویر کے علاوہ کنیسیٹ کے ارکان اور آبادکار تحریک کے رہنما 7 اکتوبر 2023 سے فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے اوراس علاقے کو دوبارہ آباد کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ نیتن یاہو خود فلسطینیوں کی "رضاکارانہ نقل مکانی" کے اپنےنظریہ کو بار بار فروغ دے رہے ہیں، جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس تجویز پر مبنی ہے کہ غزہ کے باشندوں کو پٹی سے باہر نکالا جائے اور ان کے علاقے کو 'ریویرا' میں تبدیل کردیا جائے۔ مارچ میں، اسرائیلی حکومت نے غزہ سے فلسطینیوں کو دوسرے ممالک میں جبری نقل مکانی کو منظم کرنے اور فروغ دینے کے لیے ایک خصوصی محکمہ کے قیام کی منظوری دی۔

یہ حتمی ہدف 'رفح حکمت عملی' کے عین مطابق ہے جس کا مقصد تمام شہری ڈھانچوں کو ختم کرنا ہے تاکہ اس علاقے کو کسی بھی معاشرتی زندگی کو برقرار رکھنے کے قابل نہ رہنے دیا جائے، فلسطینیوں کی زندگی ناممکن بنا دی جائے اور غزہ سے ان کی منتقلی کو "رضاکارانہ" طور پر پیش کیا جائے۔ اسرائیل نے جنوری میں جنگ بندی سے پہلے ہی بڑے پیمانے پر ایسی حکمت عملی پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔ گزشتہ سال نومبر میں، اسرائیلی فوج نے غزہ شہر کے شمال میں واقع علاقے کو مکمل طور پربند کر دیا، جس کے نتیجے میں تمام انسانی امداد اور سامان کو اس میں داخل ہونے سے روک دیا گیا جبکہ رہائشی بلاکس کو بڑے پیمانے پر مسمار کیا گیا اور باقی اسپتالوں اور اسکولوں کو زبردستی خالی کرایا گیا جہاں خاندانوں نے پناہ لی ہوئی تھی۔

اب اسرائیلی جنگی کابینہ کا جنگ میں توسیع کا فیصلہ غزہ میں انسانی صورتحال کے انتہائی سنگین ترین موڑ پر بھی سامنے آیا ہے، جو اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ میں انسانی امداد اور سامان کے داخلے کی مکمل ناکہ بندی کی وجہ سے مزید تباہ کن ہو گیا ہے۔ ہفتے کے روز، دو ماہ کی فلسطینی بچی، جینان السکافی، غزہ شہر میں غذائی قلت کی وجہ سے ہلاک ہو گئی۔ ان کی والدہ نے الجزیرہ کو بتایا کہ ان کی بچی کی پیدائش جنگ بندی کے دوران ہوئی تھی، جب سامان کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی تھی، ناکہ بندی دوبارہ شروع ہونے کے بعد اس کا وزن کم ہونا شروع ہوا اور دودھ ملنا مشکل ہو گیا۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، 51 فلسطینی بچے اکتوبر 2023 سے غذائی قلت کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں۔

جنگ بندی تک پہنچنے سے پہلے کے دو ماہ میں اسرائیل نے غزہ کے شمال حصے کی آبادی کو 800,000 سے گھٹا کر 100,000 سے بھی کم کر دیا تھا۔ اسرائیل کا شمالی غزہ کو خالی کرنے کا منصوبہ بالآخر اس وقت ناکام ہو گیا جب فلسطینی جنگ بندی کے دوران ایک بڑے، بے ساختہ، کئی دنوں تک جاری رہنے والے شمال کی جانب پیش قدمی میں واپس آئے۔ رفح میں اختیار کیے گئے موجودہ ماڈل کی طرز پر جنگ کو وسعت دینے کے حالیہ منصوبے ممکنہ طور پر اسرائیل کی جانب سے ایک نئی کوشش ہو سکتے ہیں، جس کا آغاز اس بار رفح سے کیا جا رہا ہے۔ نئے ‘موراگ’ کوریڈور  کی تشکیل فلسطینیوں کو اس کے ذریعے مصری سرحد یا سمندر کی طرف لے جانے کی آخری تیاری ہو سکتی ہے۔

اسرائیلی اندرونی رکاوٹیں

تاہم، اسرائیلی جنگی کابینہ کے نئے منصوبوں کو ایک بڑی رکاوٹ درپیش ہے جو کہ فوج کی صفوں میں فعال افرادی قوت کی کمی ہے۔ اسرائیلی فوج کے نئے چیف آف اسٹاف ایال ضمیر نے اپنے عہدے پر تعیناتی کے آغاز سے ہی فوجیوں کی کمی کے بارے میں متنبہ کیا ہے۔ وسط اپریل میں، اسرائیلی روزنامہ یدیوت اہرونوٹ نے خبر دی کہ ضمیر نے جنگی کابینہ کے وزراء کو متنبہ کیا ہے کہ اسرائیلی فوج کے پاس "اپنے تمام عزائم کو حاصل کرنے کے لئے" فوجی نہیں ہیں۔

7 اکتوبر 2023 سے کئی ماہ تک خدمات انجام دینے والے ریزرو فوجیوں کی تھکاوٹ کی وجہ سے اسرائیل کو مہینوں سے فوجیوں کی بڑھتی ہوئی کمی کا سامنا ہے، اس کے علاوہ اسرائیل کی تاریخ کی طویل ترین جنگ میں زخمیوں، معذوروں، اور صدمے کا شکار فوجیوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ اپریل میں ہزاروں اسرائیلی فوجیوں، افسران، اور سابق فوجیوں نے مسلسل خطوط پر دستخط کیے جن میں غزہ میں باقی اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے ضرورت پڑنے پر جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا، اور نیتن یاہو اور ان کی کابینہ پر اپنے ذاتی سیاسی فائدے کے لیے جنگ کو طول دینے کا الزام لگایا گیا۔

اس بحران کے مرکز میں مذہبی آرتھوڈوکس ہریدی برادری ہے، جنہیں 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد سے فوجی خدمات سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ کنیسیٹ اور حکومت میں ہریدی نمائندے ان کے استثنیٰ کو قانون میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اور اگرچہ کنیسیٹ نے جون میں پہلی بار اس قانون کو منظور کیا تھا، لیکن یہ ابھی تک نافذ العمل نہیں ہوا ہے۔ دریں اثنا، اسرائیلی فوج کے چیف آف اسٹاف نے اتوار کے روز غزہ پر جنگ کو وسعت دینے کے لیے دسیوں ہزار اسرائیلی ریزرو فوجیوں کو متحرک کرنے کے احکامات جاری کرنے کا اعلان کیا۔

اس منظوری کے باوجود، اسرائیل کے فوجی کارروائیوں کو وسعت دینے کے نئے منصوبے امریکہ کے دورے کے بعد تک عمل میں نہیں آئیں گے۔ اسرائیلی نیوز ویب سائٹ 'والا' کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ دس روز میں خطے کا دورہ کریں گے جس سے اسرائیل کی جانب سے اپنے تمام منصوبوں کے لیے امریکہ کی منظوری کی خواہش کا اظہارہوتا ہے۔ 

اب تک، فوجی کارروائیوں کو وسعت دینے اور غزہ پر دوبارہ قبضہ کرنے کے ان منصوبوں کا اعلان مغربی حکومتوں کی جانب سے کسی سرکاری رد عمل کے بغیر کیا جا رہا ہے۔ تقریبا دو سال کی نسل کشی اور 60,000 سے زائد فلسطینیوں کی ہلاکت کے بعد احتجاج کا یہ فقدان ثابت کرتا ہے کہ صرف امریکہ اسرائیل کو غزہ کے خاتمے کے لیے ہری جھنڈی نہیں دکھا رہا ہے۔ اس نسل کشی کے اور بھی بہت سے شرکاء ہیں، بھلے ہی یہ خاموش ملی بھگت کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو۔

Available in
EnglishSpanishPortuguese (Brazil)GermanFrenchArabicItalian (Standard)Chinese (PRC)Urdu
Author
Qassam Muaddi
Translators
Shafaque Naaz and Open Language Initiative
Date
10.06.2025
Source
MondoweissOriginal article🔗
War & PeacePalestine
Privacy PolicyManage CookiesContribution SettingsJobs
Site and identity: Common Knowledge & Robbie Blundell